کیسے ہنگامۂ فرصت میں ملے ہیں تجھ سے
ہم بھرے شہر کی خلوت میں ملے ہیں تجھ سے
سائے سے سایا گزرتا ہوا محسوس ہوا
اک عجب خواب کی حیرت میں ملے ہیں تجھ سے
اتنا شفاف نہیں ہے ابھی عکس دل و جاں
آئینے گرد مسافت میں ملے ہیں تجھ سے
اس قدر تنگ نہیں وسعت صحرائے جہاں
ہم تو اک اور ہی وحشت میں ملے ہیں تجھ سے
جز غم عشق کوئی کام نہیں ہے سو اے حسن
جب ملے اک نئی حالت میں ملے ہیں تجھ سے
وقت کا سیل رواں روک ہی لیں گے شاید
وہ جو پھر ملنے کی حسرت میں ملے ہیں تجھ سے
اتنا خوش فہم نہ ہو اپنی پذیرائی پر
ہم کسی اور محبت میں ملے ہیں تجھ سے
یاد کا زخم بھی ہم تجھ کو نہیں دے سکتے
دیکھ کس عالم غربت میں ملے ہیں تجھ سے
اب اگر لوٹ کے آئے تو ذرا ٹھہریں گے
ہم مسافر ہیں سو عجلت میں ملے ہیں تجھ سے
غزل
کیسے ہنگامۂ فرصت میں ملے ہیں تجھ سے
سلیم کوثر