کبھی ستارے کبھی کہکشاں بلاتا ہے
ہمیں وہ بزم میں اپنی کہاں بلاتا ہے
نہ جانے کون سی افتاد آ پڑی ہے کہ جو
ہم اہل عشق کو کار جہاں بلاتا ہے
یہ کیسا دام رہائی بچھا دیا اس نے
زمیں پکڑتی ہے اور آسماں بلاتا ہے
گلی گلی میں عقیدوں بھری دکانیں ہیں
قدم قدم پہ نیا آستاں بلاتا ہے
بھٹک گئے ہیں مگر گم نہیں ہوئے ہیں کہیں
ابھی ہمیں جرس کارواں بلاتا ہے
یہ آگ لگنے سے پہلے کی بازگشت ہے جو
بجھانے والوں کو اب تک دھواں بلاتا ہے
امید ٹوٹنے لگتی ہے جب بھی کوئی سلیمؔ
تو اک یقیں پس وہم و گماں بلاتا ہے
غزل
کبھی ستارے کبھی کہکشاں بلاتا ہے
سلیم کوثر