EN हिंदी
ریاضؔ خیرآبادی شیاری | شیح شیری

ریاضؔ خیرآبادی شیر

103 شیر

کہتی ہے اے ریاضؔ درازی یہ ریش کی
ٹٹی کی آڑ میں ہے مزا کچھ شکار کا

ریاضؔ خیرآبادی




کلی چمن میں کھلی تو مجھے خیال آیا
کسی کے بند قبا کی گرہ کھلی ہوگی

ریاضؔ خیرآبادی




خدا آباد رکھے میکدے کو
بہت سستے چھٹے دنیا و دیں سے

ریاضؔ خیرآبادی




خدا کے ہاتھ ہے بکنا نہ بکنا مے کا اے ساقی
برابر مسجد جامع کے ہم نے اب دکاں رکھ دی

ریاضؔ خیرآبادی




کس کس طرح بلائے گئے میکدے میں آج
پہنچے بنا کے شکل جو ہم روزہ دار کی

ریاضؔ خیرآبادی




کسی کا ہنس کے کہنا موت کیوں آنے لگی تم کو
یہ جتنے چاہنے والے ہیں سب بے موت مرتے ہیں

ریاضؔ خیرآبادی




کوئی منہ چوم لے گا اس نہیں پر
شکن رہ جائے گی یوں ہی جبیں پر

ریاضؔ خیرآبادی




کچھ بھی ہو ریاضؔ آنکھ میں آنسو نہیں آتے
مجھ کو تو کسی بات کا اب غم نہیں ہوتا

ریاضؔ خیرآبادی




کیا مزا دیتی ہے بجلی کی چمک مجھ کو ریاضؔ
مجھ سے لپٹے ہیں مرے نام سے ڈرنے والے

ریاضؔ خیرآبادی