کیا شراب ناب نے پستی سے پایا ہے عروج
سر چڑھی ہے حلق سے نیچے اتر جانے کے بعد
ریاضؔ خیرآبادی
لب میگوں کا تقاضا ہے کہ جینا ہوگا
آنکھ کہتی ہے تجھے زہر بھی پینا ہوگا
ریاضؔ خیرآبادی
لٹ گئی شب کو دو شے جس کو چھپاتے تھے بہت
ان حسینوں سے کوئی پوچھے کہ کیا جاتا رہا
ریاضؔ خیرآبادی
مے خانے میں کیوں یاد خدا ہوتی ہے اکثر
مسجد میں تو ذکر مے و مینا نہیں ہوتا
ریاضؔ خیرآبادی
مے خانے میں مزار ہمارا اگر بنا
دنیا یہی کہے گی کہ جنت میں گھر بنا
ریاضؔ خیرآبادی
مر گئے پھر بھی تعلق ہے یہ مے خانے سے
میرے حصے کی چھلک جاتی ہے پیمانے سے
ریاضؔ خیرآبادی
مر گیا ہوں پہ تعلق ہے یہ مے خانے سے
میرے حصے کی چھلک جاتی ہے پیمانے سے
ریاضؔ خیرآبادی
مہندی لگائے بیٹھے ہیں کچھ اس ادا سے وہ
مٹھی میں ان کی دے دے کوئی دل نکال کے
ریاضؔ خیرآبادی
میرے آغوش میں یوں ہی کبھی آ جا تو بھی
جس ادا سے تری آنکھوں میں حیا آئی ہے
ریاضؔ خیرآبادی