روتے جو آئے تھے رلا کے گئے
ابتدا انتہا کو روتے ہیں
ریاضؔ خیرآبادی
صیاد تیرا گھر مجھے جنت سہی مگر
جنت سے بھی سوا مجھے راحت چمن میں تھی
ریاضؔ خیرآبادی
شیخ جی گر گئے تھے حوض میں میخانے کے
ڈوب کر چشمۂ کوثر کے کنارے نکلے
ریاضؔ خیرآبادی
شعر تر میرے چھلکتے ہوئے ساغر ہیں ریاضؔ
پھر بھی سب پوچھتے ہیں آپ نے مے پی کہ نہیں
ریاضؔ خیرآبادی
شوخی سے ہر شگوفے کے ٹکڑے اڑا دیئے
جس غنچہ پر نگاہ پڑی دل بنا دیا
ریاضؔ خیرآبادی
سنا ہے ریاضؔ اپنی داڑھی بڑھا کر
بڑھاپے میں اللہ والے ہوئے ہیں
ریاضؔ خیرآبادی
انہیں میں سے کوئی آئے تو میخانے میں آ جائے
ملوں خود جا کے میں اہل حرم سے ہو نہیں سکتا
ریاضؔ خیرآبادی
اٹھتا ہے ایک پاؤں تو تھمتا ہے ایک پاؤں
نقش قدم کی طرح کہاں گھر بنائیں ہم
ریاضؔ خیرآبادی
اٹھواؤ میز سے مے و ساغر ریاضؔ جلد
آتے ہیں اک بزرگ پرانے خیال کے
ریاضؔ خیرآبادی