کوئی منہ چوم لے گا اس نہیں پر
شکن رہ جائے گی یوں ہی جبیں پر
گری تھی آج تو بجلی ہمیں پر
یہ کہئے جھک پڑے وہ ہم نشیں پر
لہو بیکس کا مقتل کی زمیں پر
نہ دامن پر نہ ان کی آستیں پر
بلائیں بن کے وہ آئیں ہمیں پر
دعائیں جو گئیں عرش بریں پر
یہ قسمت داغ جس میں درد جس میں
وہ دل ہو لوٹ دست نازنیں پر
رلا کر مجھ کو پونچھے اشک دشمن
رہا دھبا یہ ان کی آستیں پر
اڑائے پھرتی ہے ان کو جوانی
قدم پڑتا نہیں ان کا زمیں پر
ارے او چرخ دینے کے لئے داغ
بہت ہیں چاند کے ٹکڑے زمیں پر
نزاکت کوستی ہے مجھ کو کیا کیا
طبیعت آئی اچھی نازنیں پر
تمنائے اثر او چشم حسرت
اٹھا رکھ اب نگاہ واپسیں پر
دھری رہ جائے گی یوں ہی شب وصل
نہیں لب پر شکن ان کی جبیں پر
خدا جانے دکھائے گی یہ کیا رنگ
دعائیں جمع ہیں عرش بریں پر
نگاہ شوق گرم اتنی کہ بجلی
نہ آنچ آئے کہیں اس نازنیں پر
مجھے ہے خون کا دعویٰ مجھے ہے
انہیں پر داور محشر انہیں پر
ریاضؔ اچھے مسلماں آپ بھی ہیں
کہ دل آیا بھی تو کافر حسیں پر
غزل
کوئی منہ چوم لے گا اس نہیں پر
ریاضؔ خیرآبادی