جی اٹھے حشر میں پھر جی سے گزرنے والے
یاں بھی پیدا ہوئے پھر آپ پہ مرنے والے
چوس کر کس نے چھڑائی ہے مسی ہونٹھوں کی
سامنے منہ تو کریں بات نہ کرنے والے
شب ماتم کی اداسی ہے سہانی کتنی
چھاؤں میں تاروں کی نکلے ہیں سنورنے والے
ہم تو سمجھے تھے کہ دشمن پہ اٹھایا خنجر
تم نے جانا کہ ہمیں تم پہ ہیں مرنے والے
پی کے آئے ہیں کہیں ہاتھ نہ بہکے واعظ
داڑھی کتریں نہ کہیں جیب کترنے والے
سن ہی کیا ہے ابھی بچپن ہی جوانی میں شریک
سو رہیں پاس مرے خواب میں ڈرنے والے
ہاتھ گستاخ ہیں اٹھ جائیں نہ یہ دامن پر
بچ کے نکلیں مرے مرقد سے گزرنے والے
نزع میں حشر کے وعدے نے یہ تسکیں بخشی
چین سے سو رہے منہ ڈھانپ کے مرنے والے
اپنے دامن کو سنبھالے ہوئے بھولے پن سے
وہ چلے آتے ہیں دل لے کے مکرنے والے
صبر کی میرے مجھے داد ذرا دے دینا
او مرے حشر کے دن فیصلہ کرنے والے
آتی ہے حور جناں خلوت واعظ کے لئے
قبر میں اتریں گے منبر سے اترنے والے
تیرے عاشق جو گئے حشر میں یہ شور اٹھا
جائیں دوزخ میں دم سرد کے بھرنے والے
زیر پا دل ہی بچھے ہوں کہ ہیں خوگر اس کے
فرش گل پر بھی نہیں پاؤں وہ دھرنے والے
اشک غم ایسے نہیں ہیں جو امنڈ کر رہ جائیں
ہیں یہ طوفان مرے سر سے گزرنے والے
کیا مزا دیتی ہے بجلی کی چمک مجھ کو ریاضؔ
مجھ سے لپٹے ہیں مرے نام سے ڈرنے والے
غزل
جی اٹھے حشر میں پھر جی سے گزرنے والے
ریاضؔ خیرآبادی