جو ہم آئے تو بوتل کیوں الگ پیر مغاں رکھ دی
پرانی دوستی بھی طاق پر اے مہرباں رکھ دی
قفس میں شاخ گل صیاد نے اے آسماں رکھ دی
بنا کر شاخ گل ہاں تیری شاخ کہکشاں رکھ دی
یہ کیسی آگ بھر کر جام میں پیر مغاں رکھ دی
جو توڑی مہر ساغر سے تو کچھ اٹھا دھواں رکھ دی
ذرا چھیڑا جو اس نے ہو گئی ایسی زخود رفتہ
کہ شمع بزم نے گلگیر کے لب پر زباں رکھ دی
خدا کے ہاتھ ہے بکنا نہ بکنا مے کا اے ساقی
برابر مسجد جامع کے ہم نے اب دکاں رکھ دی
چمن کا لطف آتا ہے مجھے صیاد کے صدقے
قفس میں لا کے اس نے آج شاخ آشیاں رکھ دی
بنا ہے ایک ہی دونوں کی کعبہ ہو کہ بت خانہ
اٹھا کر خشت خم میں نے وہاں رکھ دی یہاں رکھ دی
یہ قیس و کوہ کن کے سے فسانے بن گئے کتنے
کسی نے ٹکڑے ٹکڑے سب ہماری داستاں رکھ دی
تعین سے منزہ شوخیاں ہیں اس کے جلوے کی
ہماری وسعت دل میں بنائے لا مکاں رکھ دی
نظر مدت سے تھی اے شیخ جس پر مے فروشوں کی
وہ دستار فضیلت رہین ہم نے مہرباں رکھ دی
یہ کیا تھا جلوہ ان کا دیکھنا تھا ہم کو پردے میں
لگا کر آنکھ سے ہم نے جو تصویر بتاں رکھ دی
یہ عالم ہے ریاضؔ ایک ایک قطرے کو ترستا ہوں
حرم میں اب بھری بوتل خدا جانے کہاں رکھ دی
غزل
جو ہم آئے تو بوتل کیوں الگ پیر مغاں رکھ دی
ریاضؔ خیرآبادی