EN हिंदी
ریاضؔ خیرآبادی شیاری | شیح شیری

ریاضؔ خیرآبادی شیر

103 شیر

وہ بولے وصل کی ہاں ہے تو پیاری پیاری رات
کہاں سے آئی یہ اللہ کی سنواری رات

ریاضؔ خیرآبادی




وہ جوبن بہت سر اٹھائے ہوئے ہیں
بہت تنگ بند قبا ہے کسی کا

ریاضؔ خیرآبادی




وہ پوچھتے ہیں شوق تجھے ہے وصال کا
منہ چوم لوں جواب یہ ہے اس سوال کا

ریاضؔ خیرآبادی




یہ کمبخت اک جہان آرزو ہے
نہ ہو کوئی ہمارا دل ہو ہم ہوں

ریاضؔ خیرآبادی




یہ مے کدہ ہے کہ مسجد یہ آب ہے کہ شراب
کوئی بھی ظرف برائے وضو نہیں باقی

ریاضؔ خیرآبادی




یہ قیس و کوہ کن کے سے فسانے بن گئے کتنے
کسی نے ٹکڑے کر کے سب ہماری داستاں رکھ دی

ریاضؔ خیرآبادی




ذرا جو ہم نے انہیں آج مہرباں دیکھا
نہ ہم سے پوچھیے کیا رنگ آسماں دیکھا

ریاضؔ خیرآبادی




زیر مسجد مے کدہ میں میکدے میں مست خواب
چونک اٹھا جب دی موذن نے اذاں بالائے سر

ریاضؔ خیرآبادی




ظرف وضو ہے جام ہے اک خم ہے اک سبو
اک بوریا ہے میں ہوں مری خانقاہ ہے

ریاضؔ خیرآبادی