وصل کی رات کے سوا کوئی شام
ساتھ لے کر سحر نہیں آتی
ریاضؔ خیرآبادی
وہ بولے وصل کی ہاں ہے تو پیاری پیاری رات
کہاں سے آئی یہ اللہ کی سنواری رات
ریاضؔ خیرآبادی
وہ جوبن بہت سر اٹھائے ہوئے ہیں
بہت تنگ بند قبا ہے کسی کا
ریاضؔ خیرآبادی
وہ پوچھتے ہیں شوق تجھے ہے وصال کا
منہ چوم لوں جواب یہ ہے اس سوال کا
ریاضؔ خیرآبادی
یہ کمبخت اک جہان آرزو ہے
نہ ہو کوئی ہمارا دل ہو ہم ہوں
ریاضؔ خیرآبادی
یہ مے کدہ ہے کہ مسجد یہ آب ہے کہ شراب
کوئی بھی ظرف برائے وضو نہیں باقی
ریاضؔ خیرآبادی
یہ قیس و کوہ کن کے سے فسانے بن گئے کتنے
کسی نے ٹکڑے کر کے سب ہماری داستاں رکھ دی
ریاضؔ خیرآبادی
یہ سر بہ مہر بوتلیں ہیں جو شراب کی
راتیں ہیں ان میں بند ہماری شباب کی
ریاضؔ خیرآبادی
یہ سر بہ مہر بوتلیں جو ہیں شراب کی
راتیں ہیں ان میں بند ہمارے شباب کی
ریاضؔ خیرآبادی