حقیقت جس جگہ ہوتی ہے تابانی بتاتی ہے
کوئی پردے میں ہوتا ہے تو چلمن جگمگاتی ہے
وہ آئے بھی نہیں اور زندگی کی رات جاتی ہے
سحر ہوتی ہے اور شمع تمنا جھلملاتی ہے
ستاروں کا سہارا لے کے دھرتی بیٹھ جاتی ہے
فلک کو دیکھ کر جس دم غریبی مسکراتی ہے
میں دامن تھامتا ہوں اور ادا دامن چھڑاتی ہے
محبت ہے تو کچھ بے گانگی بھی پائی جاتی ہے
مری ناکامیٔ غم ذوق حیرانی بناتی ہے
یہ دنیا دور سے میری نظر میں جگمگاتی ہے
سکوت وصل کا لمحہ بھی کیا بیدار خوابی ہے
محبت جاگتی ہے اور جوانی سوئی جاتی ہے
وہ جب سنجیدہ ہوتے ہیں ادا انگڑائی لیتی ہے
وہ جب خاموش ہوتے ہیں جوانی گنگناتی ہے
زمانہ ہے کہ دل گیری میں افسردہ سا رہتا ہے
طبیعت ہے کہ غمگینی میں جولانی پہ آتی ہے
ہوائے دامن نکہت فزا کا واسطہ تم کو
ذرا ٹھہرو چراغ زیست کی لو تھرتھراتی ہے
مسلسل گلشن ہستی میں کانٹے اس نے بوئے ہیں
یہ دنیا پھر انہیں کانٹوں سے کیوں دامن بچاتی ہے
نہ غم فرصت ہی دیتا ہے نہ آنسو بند ہوتے ہیں
برستا جا رہا ہے مینہ بدلی بنتی جاتی ہے
یہی ہستی نشورؔ اک روز ہے انجام ہستی بھی
یہی دنیا کسی منزل پہ عقبیٰ ہو کے آتی ہے

غزل
حقیقت جس جگہ ہوتی ہے تابانی بتاتی ہے
نشور واحدی