نئے چراغ کی لو پاؤں سے لپٹتی ہے
مگر وہ رات کہاں راستے سے ہٹتی ہے
میں خانقاہ بدن سے اداس لوٹ آیا
یہاں بھی چاہنے والوں میں خاک بٹتی ہے
ذرا سا سچ بھی کسی سے کہا نہیں جاتا
ذرا سی بات پہ گردن ہماری کٹتی ہے
یہ کس کے پاؤں رکھے ہیں ہوا کے سینے پر
اگر میں سانس بھی لیتا ہوں عمر گھٹتی ہے
ابھی بہت ہیں اندھیروں کو پوجنے والے
یہاں چراغ بجھاؤ تو رات کٹتی ہے
غزل
نئے چراغ کی لو پاؤں سے لپٹتی ہے
نعمان شوق