کل مرے قتل کو اس ڈھب سے وہ بانکا نکلا
منہ سے جلاد فلک کے بھی اہاہا نکلا
آگے آہوں کے نشاں سمجھے مرے اشکوں کے
آج اس دھوم سے ظالم ترا شیدا نکلا
یوں تو ہم کچھ نہ تھے پر مثل انار و مہتاب
جب ہمیں آگ لگائی تو تماشا نکلا
کیا غلط فہمی ہے صد حیف کہ مرتے دم تک
جس کو ہم سمجھے تھے قاتل وہ مسیحا نکلا
غم میں ہم بھان متی بن کے جہاں بیٹھے تھے
اتفاقاً کہیں وہ شوخ بھی واں آ نکلا
سینے کی آگ دکھانے کو دہن سے میرے
شعلے پر شعلہ بھبھوکے پہ بھبھوکا نکلا
مت شفق کہہ یہ ترا خون فلک پر ہے نظیرؔ
دیکھ ٹپکا تھا کہاں اور کہاں جا نکلا
غزل
کل مرے قتل کو اس ڈھب سے وہ بانکا نکلا
نظیر اکبرآبادی