EN हिंदी
کل مرے قتل کو اس ڈھب سے وہ بانکا نکلا | شیح شیری
kal mere qatl ko is Dhab se wo banka nikla

غزل

کل مرے قتل کو اس ڈھب سے وہ بانکا نکلا

نظیر اکبرآبادی

;

کل مرے قتل کو اس ڈھب سے وہ بانکا نکلا
منہ سے جلاد فلک کے بھی اہاہا نکلا

آگے آہوں کے نشاں سمجھے مرے اشکوں کے
آج اس دھوم سے ظالم ترا شیدا نکلا

یوں تو ہم کچھ نہ تھے پر مثل انار و مہتاب
جب ہمیں آگ لگائی تو تماشا نکلا

کیا غلط فہمی ہے صد حیف کہ مرتے دم تک
جس کو ہم سمجھے تھے قاتل وہ مسیحا نکلا

غم میں ہم بھان متی بن کے جہاں بیٹھے تھے
اتفاقاً کہیں وہ شوخ بھی واں آ نکلا

سینے کی آگ دکھانے کو دہن سے میرے
شعلے پر شعلہ بھبھوکے پہ بھبھوکا نکلا

مت شفق کہہ یہ ترا خون فلک پر ہے نظیرؔ
دیکھ ٹپکا تھا کہاں اور کہاں جا نکلا