محبت قدرداں ہوتی تو پھر کاہے کا رونا تھا
ہمیں بھی تم سمجھتے تم کو جیسا ہم سمجھتے ہیں
مضطر خیرآبادی
مصیبت اور لمبی زندگانی
بزرگوں کی دعا نے مار ڈالا
all these worldly troubles and longevity
blessings of the elders is the death of me
مضطر خیرآبادی
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آ سکے میں وہ ایک مشت غبار ہوں
I'm not the light of any eye, for me none has a care
no use to anyone am I, dust merely scattered there
مضطر خیرآبادی
نہ رو اتنا پرائے واسطے اے دیدۂ گریاں
کسی کا کچھ نہیں جاتا تری بینائی جاتی ہے
مضطر خیرآبادی
نہ اس کے دامن سے میں ہی الجھا نہ میرے دامن سے یہ ہی اٹکی
ہوا سے میرا بگاڑ کیا ہے جو شمع تربت بجھا رہی ہے
مضطر خیرآبادی
نہیں ہوں میں تو تری بندگی کے کیا معنی
نہیں ہے تو تو خدا کون ہے زمانے کا
مضطر خیرآبادی
نہیں منظور جب ملنا تو وعدے کی ضرورت کیا
یہ تم کو جھوٹی موٹی عادت اقرار کیسی ہے
مضطر خیرآبادی
نمک پاش زخم جگر اب تو آ جا
مرا دل بہت بے مزا ہو رہا ہے
مضطر خیرآبادی
نظر کے سامنے کعبہ بھی ہے کلیسا بھی
یہی تو وقت ہے تقدیر آزمانے کا
مضطر خیرآبادی