قبر پر کیا ہوا جو میلا ہے
مرنے والا نرا اکیلا ہے
مضطر خیرآبادی
قیس نے پردۂ محمل کو جو دیکھا تو کہا
یہ بھی اللہ کرے میرا گریباں ہو جائے
مضطر خیرآبادی
قیامت میں بڑی گرمی پڑے گی حضرت زاہد
یہیں سے بادۂ گل رنگ میں دامن کو تر کر لو
مضطر خیرآبادی
قبلہ بن جائے جہاں تو کوئی پتھر رکھ دے
دست اسلام وہیں دین کا منبر رکھ دے
مضطر خیرآبادی
رنج غربت میں دیکھ کر مجھ کو
دل صحرا بھی باغ باغ ہوا
مضطر خیرآبادی
روح دیتی رہی ترغیب تعلی برسوں
ہم مگر تیری گلی چھوڑ کے اوپر نہ گئے
مضطر خیرآبادی
ساقی مرا کھنچا تھا تو میں نے منا لیا
یہ کس طرح منے جو دھری ہے کھنچی ہوئی
مضطر خیرآبادی
ساقی نے لگی دل کی اس طرح بجھا دی تھی
اک بوند چھڑک دی تھی اک بوند چکھا دی تھی
مضطر خیرآبادی
ساقی تری نظر تو قیامت سی ڈھا گئی
ٹھوکر لگی تو شیشۂ توبہ بھی چور تھا
مضطر خیرآبادی