EN हिंदी
مضطر خیرآبادی شیاری | شیح شیری

مضطر خیرآبادی شیر

199 شیر

قبر پر کیا ہوا جو میلا ہے
مرنے والا نرا اکیلا ہے

مضطر خیرآبادی




قیس نے پردۂ محمل کو جو دیکھا تو کہا
یہ بھی اللہ کرے میرا گریباں ہو جائے

مضطر خیرآبادی




قیامت میں بڑی گرمی پڑے گی حضرت زاہد
یہیں سے بادۂ گل رنگ میں دامن کو تر کر لو

مضطر خیرآبادی




قبلہ بن جائے جہاں تو کوئی پتھر رکھ دے
دست اسلام وہیں دین کا منبر رکھ دے

مضطر خیرآبادی




رنج غربت میں دیکھ کر مجھ کو
دل صحرا بھی باغ باغ ہوا

مضطر خیرآبادی




روح دیتی رہی ترغیب تعلی برسوں
ہم مگر تیری گلی چھوڑ کے اوپر نہ گئے

مضطر خیرآبادی




ساقی مرا کھنچا تھا تو میں نے منا لیا
یہ کس طرح منے جو دھری ہے کھنچی ہوئی

مضطر خیرآبادی




ساقی نے لگی دل کی اس طرح بجھا دی تھی
اک بوند چھڑک دی تھی اک بوند چکھا دی تھی

مضطر خیرآبادی




ساقی تری نظر تو قیامت سی ڈھا گئی
ٹھوکر لگی تو شیشۂ توبہ بھی چور تھا

مضطر خیرآبادی