نچھاور بت کدہ پر دل کروں کعبہ تو کوسوں ہے
کہاں لے جاؤں اتنی دور قربانی محبت کی
مضطر خیرآبادی
نگاہ یار مل جاتی تو ہم شاگرد ہو جاتے
ذرا یہ سیکھ لیتے دل کے لے لینے کا ڈھب کیا ہے
مضطر خیرآبادی
نگاہوں میں پھرتی ہے آٹھوں پہر
قیامت بھی ظالم کا قد ہو گئی
مضطر خیرآبادی
پڑ گئے زلفوں کے پھندے اور بھی
اب تو یہ الجھن ہے چندے اور بھی
مضطر خیرآبادی
پڑا ہوں اس طرح اس در پہ مضطرؔ
کوئی دیکھے تو جانے مار ڈالا
مضطر خیرآبادی
پہلے ہم میں تھے اور اب ہم سے جدا رہتے ہیں
آپ کاہے کو غریبوں سے خفا رہتے ہیں
مضطر خیرآبادی
پردے والے بھی کہیں آتے ہیں گھر سے باہر
اب جو آ بیٹھے ہو تم دل میں تو بیٹھے رہنا
مضطر خیرآبادی
پھونکے دیتا ہے کسی کا سوز پنہانی مجھے
اب تو میری آنکھ بھی دیتی نہیں پانی مجھے
مضطر خیرآبادی
قاصد نے خبر آمد دلبر کی اڑا دی
آیا بھی تو کم بخت نے بے پر کی اڑا دی
مضطر خیرآبادی