یہی صورت وہاں تھی بے ضرورت بت کدہ چھوڑا
خدا کے گھر میں رکھا کیا ہے ناحق اتنی دور آئے
مضطر خیرآبادی
یہ نقشہ ہے کہ منہ تکنے لگا ہے مدعا میرا
یہ حالت ہے کہ صورت دیکھتا ہے مدعی میری
مضطر خیرآبادی
یہ پیدا ہوتے ہی رونا صریحاً بدشگونی ہے
مصیبت میں رہیں گے اور مصیبت لے کے اٹھیں گے
مضطر خیرآبادی
یہ تو ممکن نہیں محبت میں
آپ جو کچھ کہیں وہ ہم نہ کریں
مضطر خیرآبادی
یہ تو سمجھا میں خدا کو کہ خدا ہے لیکن
یہ نہ سمجھا کہ سمجھ میں مری کیوں کر آیا
مضطر خیرآبادی
یوں کہیں ڈوب کے مر جاؤں تو اچھا ہے مگر
آپ کی چاہ کا پانی نہیں بھرنا مجھ کو
مضطر خیرآبادی
زاہد تو بخشے جائیں گنہ گار منہ تکیں
اے رحمت خدا تجھے ایسا نہ چاہئے
مضطر خیرآبادی
زباں قاصد کی مضطرؔ کاٹ لی جب ان کو خط بھیجا
کہ آخر آدمی ہے تذکرہ شاید کہیں کر دے
مضطر خیرآبادی
زلف کا حال تک کبھی نہ سنا
کیوں پریشاں مرا دماغ ہوا
مضطر خیرآبادی