EN हिंदी
مضطر خیرآبادی شیاری | شیح شیری

مضطر خیرآبادی شیر

199 شیر

یہی صورت وہاں تھی بے ضرورت بت کدہ چھوڑا
خدا کے گھر میں رکھا کیا ہے ناحق اتنی دور آئے

مضطر خیرآبادی




یہ نقشہ ہے کہ منہ تکنے لگا ہے مدعا میرا
یہ حالت ہے کہ صورت دیکھتا ہے مدعی میری

مضطر خیرآبادی




یہ پیدا ہوتے ہی رونا صریحاً بدشگونی ہے
مصیبت میں رہیں گے اور مصیبت لے کے اٹھیں گے

مضطر خیرآبادی




یہ تو ممکن نہیں محبت میں
آپ جو کچھ کہیں وہ ہم نہ کریں

مضطر خیرآبادی




یہ تو سمجھا میں خدا کو کہ خدا ہے لیکن
یہ نہ سمجھا کہ سمجھ میں مری کیوں کر آیا

مضطر خیرآبادی




یوں کہیں ڈوب کے مر جاؤں تو اچھا ہے مگر
آپ کی چاہ کا پانی نہیں بھرنا مجھ کو

مضطر خیرآبادی




زاہد تو بخشے جائیں گنہ گار منہ تکیں
اے رحمت خدا تجھے ایسا نہ چاہئے

مضطر خیرآبادی




زباں قاصد کی مضطرؔ کاٹ لی جب ان کو خط بھیجا
کہ آخر آدمی ہے تذکرہ شاید کہیں کر دے

مضطر خیرآبادی




زلف کا حال تک کبھی نہ سنا
کیوں پریشاں مرا دماغ ہوا

مضطر خیرآبادی