اے بتو رنج کے ساتھی ہو نہ آرام کے تم
کام ہی جب نہیں آتے ہو تو کس کام کے تم
مضطر خیرآبادی
آئنہ دیکھ کر غرور فضول
بات وہ کر جو دوسرا نہ کرے
مضطر خیرآبادی
اگر تقدیر سیدھی ہے تو خود ہو جاؤ گے سیدھے
خفا بیٹھے رہو تم کو منانے کون آتا ہے
مضطر خیرآبادی
عدو کو چھوڑ دو پھر جان بھی مانگو تو حاضر ہے
تم ایسا کر نہیں سکتے تو ایسا ہو نہیں سکتا
مضطر خیرآبادی
اب کون پھرے کوئے بت دشمن دیں سے
اللہ کے گھر کیوں نہ چلے جائیں یہیں سے
مضطر خیرآبادی
عاشقوں کی روح کو تعلیم وحدت کے لیے
جس جگہ اللہ رہتا ہے وہاں رہنا پڑا
مضطر خیرآبادی
آپ سے مجھ کو محبت جو نہیں ہے نہ سہی
اور بقول آپ کے ہونے کو اگر ہے بھی تو کیا
مضطر خیرآبادی
آہ رسا خدا کے لیے دیکھ بھال کے
ان کا بھی گھر ملا ہوا دشمن کے گھر سے ہے
مضطر خیرآبادی
آؤ تو میرے آئنۂ دل کے سامنے
ایسا حسیں دکھاؤں کہ ایسا نہ ہو کہیں
مضطر خیرآبادی