EN हिंदी
مضطر خیرآبادی شیاری | شیح شیری

مضطر خیرآبادی شیر

199 شیر

اے بتو رنج کے ساتھی ہو نہ آرام کے تم
کام ہی جب نہیں آتے ہو تو کس کام کے تم

مضطر خیرآبادی




آئنہ دیکھ کر غرور فضول
بات وہ کر جو دوسرا نہ کرے

مضطر خیرآبادی




اگر تقدیر سیدھی ہے تو خود ہو جاؤ گے سیدھے
خفا بیٹھے رہو تم کو منانے کون آتا ہے

مضطر خیرآبادی




عدو کو چھوڑ دو پھر جان بھی مانگو تو حاضر ہے
تم ایسا کر نہیں سکتے تو ایسا ہو نہیں سکتا

مضطر خیرآبادی




اب کون پھرے کوئے بت دشمن دیں سے
اللہ کے گھر کیوں نہ چلے جائیں یہیں سے

مضطر خیرآبادی




عاشقوں کی روح کو تعلیم وحدت کے لیے
جس جگہ اللہ رہتا ہے وہاں رہنا پڑا

مضطر خیرآبادی




آپ سے مجھ کو محبت جو نہیں ہے نہ سہی
اور بقول آپ کے ہونے کو اگر ہے بھی تو کیا

مضطر خیرآبادی




آہ رسا خدا کے لیے دیکھ بھال کے
ان کا بھی گھر ملا ہوا دشمن کے گھر سے ہے

مضطر خیرآبادی




آؤ تو میرے آئنۂ دل کے سامنے
ایسا حسیں دکھاؤں کہ ایسا نہ ہو کہیں

مضطر خیرآبادی