میں مسیحا اسے سمجھتا ہوں
جو مرے درد کی دوا نہ کرے
مضطر خیرآبادی
میں نہیں ہوں نغمۂ جاں فزا مجھے سن کے کوئی کرے گا کیا
میں بڑے بروگ کی ہوں صدا میں بڑے دکھی کی پکار ہوں
مضطر خیرآبادی
میں تری راہ طلب میں بہ تمنائے وصال
محو ایسا ہوں کہ مٹنے کا بھی کچھ دھیان نہیں
مضطر خیرآبادی
مسیحا جا رہا ہے دوڑ کر آواز دو مضطرؔ
کہ دل کو دیکھتا جا جس میں چھالے پڑتے جاتے ہیں
مضطر خیرآبادی
میرا دل مضطرؔ بت کافر سے لگا ہے
اور آنکھ مری سوئے خدا دیکھ رہی ہے
مضطر خیرآبادی
میرا رنگ روپ بگڑ گیا مرا یار مجھ سے بچھڑ گیا
جو چمن خزاں سے اجڑ گیا میں اسی کی فصل بہار ہوں
مضطر خیرآبادی
میرے اشکوں کی روانی کو روانی تو کہو
خیر تم خون نہ سمجھو اسے پانی تو کہو
مضطر خیرآبادی
میرے غبار کی یہ تعلی تو دیکھیے
اتنا بڑھا کہ عرش معلی سے مل گیا
مضطر خیرآبادی
میری ارمان بھری آنکھ کی تاثیر ہے یہ
جس کو میں پیار سے دیکھوں گا وہی تو ہوگا
مضطر خیرآبادی