EN हिंदी
مضطر خیرآبادی شیاری | شیح شیری

مضطر خیرآبادی شیر

199 شیر

میں مسیحا اسے سمجھتا ہوں
جو مرے درد کی دوا نہ کرے

مضطر خیرآبادی




میں نہیں ہوں نغمۂ جاں فزا مجھے سن کے کوئی کرے گا کیا
میں بڑے بروگ کی ہوں صدا میں بڑے دکھی کی پکار ہوں

مضطر خیرآبادی




میں تری راہ طلب میں بہ تمنائے وصال
محو ایسا ہوں کہ مٹنے کا بھی کچھ دھیان نہیں

مضطر خیرآبادی




مسیحا جا رہا ہے دوڑ کر آواز دو مضطرؔ
کہ دل کو دیکھتا جا جس میں چھالے پڑتے جاتے ہیں

مضطر خیرآبادی




میرا دل مضطرؔ بت کافر سے لگا ہے
اور آنکھ مری سوئے خدا دیکھ رہی ہے

مضطر خیرآبادی




میرا رنگ روپ بگڑ گیا مرا یار مجھ سے بچھڑ گیا
جو چمن خزاں سے اجڑ گیا میں اسی کی فصل بہار ہوں

مضطر خیرآبادی




میرے اشکوں کی روانی کو روانی تو کہو
خیر تم خون نہ سمجھو اسے پانی تو کہو

مضطر خیرآبادی




میرے غبار کی یہ تعلی تو دیکھیے
اتنا بڑھا کہ عرش معلی سے مل گیا

مضطر خیرآبادی




میری ارمان بھری آنکھ کی تاثیر ہے یہ
جس کو میں پیار سے دیکھوں گا وہی تو ہوگا

مضطر خیرآبادی