اب کے وصل کا موسم یوں ہی بے چینی میں بیت گیا
اس کے ہونٹوں پر چاہت کا پھول کھلا بھی کتنی دیر
محمد احمد رمز
الفاظ کی گرفت سے ہے ماورا ہنوز
اک بات کہہ گیا وہ مگر کتنے کام کی
محمد احمد رمز
اور کوئی دنیا ہے تیری جس کی کھوج کروں
ذہن میں پھر اک سمت بکھیری راہ گزر ڈالی
محمد احمد رمز
حرف کو لفظ نہ کر لفظ کو اظہار نہ دے
کوئی تصویر مکمل نہ بنا اس کے لیے
محمد احمد رمز
اک سچ کی آواز میں ہیں جینے کے ہزار آہنگ
لشکر کی کثرت پہ نہ جانا بیعت مت کرنا
محمد احمد رمز
جیسے خلا کے پس منظر میں رنگ رنگ کے نقش و نگار
باتیں اس کی وزن سے خالی لہجہ بھاری بھرکم ہے
محمد احمد رمز
کون پوچھے مجھ سے میری گوشہ گیری کا سبب
کون سمجھے در کبھی دیوار کر لینا مرا
محمد احمد رمز
رمزؔ ادھورے خوابوں کی یہ گھٹتی بڑھتی چھاؤں
تم سے دیکھی جائے تو دیکھو مجھ سے نہ دیکھی جائے
محمد احمد رمز
سارے امکانات میں روشن صرف یہی دو پہلو
ایک ترا آئینہ خانہ اک میری حیرانی
محمد احمد رمز