میرے لیے کیا شور بھنور کا کیا موجوں کی روانی
میری پیاس کے ساحل تک ہے تیرا بہتا پانی
سارے امکانات میں روشن صرف یہی دو پہلو
ایک ترا آئینہ خانہ اک میری حیرانی
آج ہوں میں اپنے بستر پر کروٹ کروٹ بوجھل
میری نیند سے آ کر الجھی اک بے رنگ کہانی
ملنا جلنا رسم ہی ٹھہرا پھر کیا شکوہ شکایت
تازہ زخم کوئی دے جاؤ چھوڑو بات پرانی
میں ہوں اک دلچسپ تماشا دنیا ہے اک میلا
میرا چہرہ بن جاتی ہے ہر صورت انجانی
پنچھی کے دو پروں کے نیچے سمٹا سارا سمندر
اپنے ظرف کی گہرائی میں ڈوب گئی طغیانی
آج چلو آوارہ پھریں ہم شہر میں گلیوں گلیوں
رمزؔ ہو کچھ تم بھی من موجی ہم بھی ہیں سیلانی
غزل
میرے لیے کیا شور بھنور کا کیا موجوں کی روانی
محمد احمد رمز