اس پار بنتی مٹتی دھنک اس کے نام کی
اس پار میں ہوں اور سیاہی ہے شام کی
کن کن بلندیوں سے الجھتا رہا ہے ذہن
یہ آسماں جھلک بھی نہیں اس کے بام کی
الفاظ کی گرفت سے ہے ماورا ہنوز
اک بات کہہ گیا وہ مگر کتنے کام کی
اعجاز دے رہا ہوں اب اپنے ہنر کو میں
شمشیر کے لیے ہے ضرورت نیام کی
اک روشنی سی مجھ پہ اترتی ہے گاہ گاہ
بنیاد اس نے ڈالی پیام و سلام کی
خوشبو کا کوئی رنگ نہ پیکر نہ پیرہن
تصویر ہے مگر ترے طرز خرام کی
بولو کہ تم بھی رکھتے ہو اک سرگزشت رمزؔ
سنبھلو کہ اس نے اپنی کہانی تمام کی
غزل
اس پار بنتی مٹتی دھنک اس کے نام کی
محمد احمد رمز