میرے لہو کی سرشاری کیا اس کی فضا بھی کتنی دیر
تیرے کف نازک پہ رہے گا رنگ حنا بھی کتنی دیر
اس کی نظر کی ہلکی سی جنبش کیا کیا جوہر رکھتی ہے
لا سکتا ہے تاب تماشا آئینہ بھی کتنی دیر
اب کے وصل کا موسم یوں ہی بے چینی میں بیت گیا
اس کے ہونٹوں پر چاہت کا پھول کھلا بھی کتنی دیر
کوئی تکلم کوئی اشارہ کوئی آہٹ پاس نہیں
زندہ رہے ویرانۂ جاں میں دل کی صدا بھی کتنی دیر
بکھرا دیں اطراف جنوں میں کیسی کیسی خوشبوئیں
کوچۂ یار میں ٹھہری ہوگی باد صبا بھی کتنی دیر
میرے دل میں گہرائی تک زخم ہیں اندھی خواہش کے
اور ابھی ہونٹوں پہ رہے گا زہر دعا بھی کتنی دیر
اپنی ایک ادا رکھتی ہے اس کے بعد کی گدازی بھی
کچھ تو سوچو اس پہ چلے گا سحر قبا بھی کتنی دیر
آگے دھند ہے بے سمتی کی پیچھے غبار گم شدگی
میرے سر میں ساتھ رہے گی میری انا بھی کتنی دیر
اس کے تغافل کا بھی بھرم رکھ اس سے اتنی چھیڑ نہ کر
رمزؔ برستی ہے بے موسم کوئی گھٹا بھی کتنی دیر
غزل
میرے لہو کی سرشاری کیا اس کی فضا بھی کتنی دیر
محمد احمد رمز