اک گہری چپ اندر اندر روح میں اتری جائے
لا فانی ہو جاؤں یہ خواہش پل پل بڑھتی جائے
یہ پتھر سی تنہائی یہ بھاری بوجھل رات
جانے کیسا بوجھ ہے دل پر نس نس ٹوٹی جائے
ایک نیا ان دیکھا منظر مجھ سے کرے کلام
ایک نئی انجانی خوشبو مجھ سے لپٹی جائے
اس کا ساتھ اک الجھی ڈور ہے بھاگتے لمحوں کی
جتنا سلجھاؤں میں اس کو اتنا الجھتی جائے
سارے نقش تمناؤں کے روشن ہوتے جائیں
کھڑکی میں اس کی پرچھائیں گہری ہوتی جائے
رمزؔ ادھورے خوابوں کی یہ گھٹتی بڑھتی چھاؤں
تم سے دیکھی جائے تو دیکھو مجھ سے نہ دیکھی جائے
غزل
اک گہری چپ اندر اندر روح میں اتری جائے
محمد احمد رمز