اٹھے غبار شور نفس تو وحشت مت کرنا
دشت دروں سے ہجرت کیسی ہجرت مت کرنا
دریا سبزہ پھول ستارے اچھی خواہش ہے
پتھر کانٹے دھوپ گرد سے نفرت مت کرنا
اک سچ کی آواز میں ہیں جینے کے ہزار آہنگ
لشکر کی کثرت پہ نہ جانا بیعت مت کرنا
نیزۂ صبح پہ لے کر چلنا کل کا سورج
شب میں مگر اعلان نوید نصرت مت کرنا
میں تو سب کچھ دیکھ رہا ہوں کیا کیا ہے اس پار
میں جو کہوں شیشے کا فلک ہے حیرت مت کرنا
گیند سی ہے بے وزن یہ دنیا میری ٹھوکر میں
میں جو کہوں تم اس کو اچھالو جرأت مت کرنا
رمزؔ سمندر کی گہرائی میرا سر انگشت
میں جو کہوں اترو پانی میں عجلت مت کرنا
غزل
اٹھے غبار شور نفس تو وحشت مت کرنا
محمد احمد رمز