پھر اک تیر سنبھالا اس نے مجھ پہ نظر ڈالی
آخری نیکی تھی ترکش میں وہ بھی کر ڈالی
ٹھہرو یہیں اے قافلے والو آیا دشت بلا
اس نے یہ کہہ کے اپنے سر پر خاک سفر ڈالی
اور کوئی دنیا ہے تیری جس کی کھوج کروں
ذہن میں پھر اک سمت بکھیری راہ گزر ڈالی
ہاتھ ہوا کے بڑھنے لگے ہیں بستی کے اطراف
دیکھو اس نے چنگاری اب کس کے گھر ڈالی
چشم فلک کا اک آنسو ہے گردش کرتی زمیں
کیا پیش آیا جو اس نے بنائے دیدۂ تر ڈالی
وقت سے پوچھو وقت سے سچا شاہد کوئی نہیں
کس نے تیغ اٹھائی رن میں کس نے سپر ڈالی
میں تو بس گوہر سے خالی ایک صدف ہوں رمزؔ
مشکل ہوگی اس نے کوئی بات اگر ڈالی
غزل
پھر اک تیر سنبھالا اس نے مجھ پہ نظر ڈالی
محمد احمد رمز