تھی مری ہم سفری ایک دعا اس کے لیے
یہ بچھڑنا ہے بڑی سخت سزا اس کے لیے
اب کوئی سلسلۂ ترک و طلب ہی نہ رہا
آنکھ میں ایک بھی منظر نہ رکا اس کے لیے
اس کے خوابوں کو نہ دے موسم تعبیر مرا
کوئی پیغام نہ لے جائے صبا اس کے لیے
حرف کو لفظ نہ کر لفظ کو اظہار نہ دے
کوئی تصویر مکمل نہ بنا اس کے لیے
میں اسے بھول بھی جاؤں مگر اے بے خبری
میری چپ اس کے لیے میری نوا اس کے لیے
رمزؔ دے جائے تو کیا رنگ کوئی میرا لہو
رمزؔ پس جائے تو کیا برگ حنا اس کے لیے
غزل
تھی مری ہم سفری ایک دعا اس کے لیے
محمد احمد رمز