EN हिंदी
تھی مری ہم سفری ایک دعا اس کے لیے | شیح شیری
thi meri ham-safri ek dua uske liye

غزل

تھی مری ہم سفری ایک دعا اس کے لیے

محمد احمد رمز

;

تھی مری ہم سفری ایک دعا اس کے لیے
یہ بچھڑنا ہے بڑی سخت سزا اس کے لیے

اب کوئی سلسلۂ ترک و طلب ہی نہ رہا
آنکھ میں ایک بھی منظر نہ رکا اس کے لیے

اس کے خوابوں کو نہ دے موسم تعبیر مرا
کوئی پیغام نہ لے جائے صبا اس کے لیے

حرف کو لفظ نہ کر لفظ کو اظہار نہ دے
کوئی تصویر مکمل نہ بنا اس کے لیے

میں اسے بھول بھی جاؤں مگر اے بے خبری
میری چپ اس کے لیے میری نوا اس کے لیے

رمزؔ دے جائے تو کیا رنگ کوئی میرا لہو
رمزؔ پس جائے تو کیا برگ حنا اس کے لیے