صفا الماس و گوہر سے فزوں ہے تیرے دنداں کی
کہاں تجھ لب کے آگے قدر و قیمت لعل و مرجاں کی
عجب کی ساحری اس من ہرن کے چشم فتاں نے
دیا کاجل سیاہی لے کے آنکھوں سے غزالاں کی
تجھے اے لالہ رو وہ حسن رنگیں ہے کہ گل رویاں
عبیری پیرہن کرتے ہیں تیری گرد داماں کی
عبث مل مل کے دھوتا ہے تو اپنے دست نازک کو
نہیں جانے کی سرخی ہاتھ سے خون شہیداں کی
بہار آئی چمن میں گل کھلے اے باغباں شاید
جنوں نے دھجیاں گر جو اڑائیں پھر گریباں کی
قد موزوں تو شمشاد و صنوبر رکھتے ہیں لیکن
کہاں پاویں لٹک کی چال اس سرو خراماں کی
نہ دیکھی آنکھ اٹھا بد حالی آشفتگاں ظالم
بناتا ہی رہا تو خوش خمی زلف پریشاں کی
برہنہ پا جنوں آوارہ کون اس دشت سے گزرا
کہ رنگیں خوں سے ہے یاں نوک ہر خار مغیلاں کی
رکھو مت چشم خواب اے دوستو بیدارؔ سے ہرگز
کوئی دیتی ہے سونے یاد اس روئے درخشاں کی
غزل
صفا الماس و گوہر سے فزوں ہے تیرے دنداں کی
میر محمدی بیدار