ایک دن مدتوں میں آئے ہو
آہ تس پر بھی منہ چھپائے ہو
آپ کو آپ میں نہیں پاتا
جی میں یاں تک مرے سمائے ہو
کیا کہوں تم کو اے دل و دیدہ
جو جو کچھ سر پہ میرے لائے ہو
دید بس کر لیا اس عالم کا
پھر چلو واں جہاں سے آئے ہو
کیونکہ تشبیہ اس سے دے بیدارؔ
مہ سے تم حسن میں سوائے ہو
غزل
ایک دن مدتوں میں آئے ہو
میر محمدی بیدار