EN हिंदी
ملک زادہ منظور احمد شیاری | شیح شیری

ملک زادہ منظور احمد شیر

23 شیر

جن سفینوں نے کبھی توڑا تھا موجوں کا غرور
اس جگہ ڈوبے جہاں دریا میں طغیانی نہ تھی

ملک زادہ منظور احمد




اب دیکھ کے اپنی صورت کو اک چوٹ سی دل پر لگتی ہے
گزرے ہوئے لمحے کہتے ہیں آئینہ بھی پتھر ہوتا ہے

ملک زادہ منظور احمد




دیوانہ ہر اک حال میں دیوانہ رہے گا
فرزانہ کہا جائے کہ دیوانہ کہا جائے

ملک زادہ منظور احمد




دیکھو گے تو ہر موڑ پہ مل جائیں گی لاشیں
ڈھونڈوگے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا

ملک زادہ منظور احمد




دور عشرت نے سنوارے ہیں غزل کے گیسو
فکر کے پہلو مگر غم کی بدولت آئے

ملک زادہ منظور احمد




دریا کے تلاطم سے تو بچ سکتی ہے کشتی
کشتی میں تلاطم ہو تو ساحل نہ ملے گا

from the storms of the seas the ship might well survive
but if the storm is in the ship, no shore can then arrive

ملک زادہ منظور احمد




چہرے پہ سارے شہر کے گرد ملال ہے
جو دل کا حال ہے وہی دلی کا حال ہے

ملک زادہ منظور احمد




بے چہرگی کی بھیڑ میں گم ہے مرا وجود
میں خود کو ڈھونڈھتا ہوں مجھے خد و خال دے

ملک زادہ منظور احمد




عرض طلب پر اس کی چپ سے ظاہر ہے انکار مگر
شاید وہ کچھ سوچ رہا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے

ملک زادہ منظور احمد