رخ پہ احباب کے پھر رنگ مسرت آئے
پھر مری سمت کوئی سنگ ملامت آئے
تیری رحمت کا بھرم ٹوٹ رہا ہے شاید
آج آنکھوں میں مری اشک ندامت آئے
وقت شاہد ہے کہ ہر دور میں عیسیٰ کی طرح
ہم صلیبوں پہ لیے اپنی صداقت آئے
حسن ہے ان میں ترا میرے جنوں کا انداز
پھول بھی لے کے عجب شکل و شباہت آئے
دور عشرت نے سنوارے ہیں غزل کے گیسو
فکر کے پہلو مگر غم کی بدولت آئے
غزل
رخ پہ احباب کے پھر رنگ مسرت آئے
ملک زادہ منظور احمد