ایسی تڑپ عطا ہو کہ دنیا مثال دے
اک موج تہ نشیں ہوں مجھے بھی اچھال دے
بے چہرگی کی بھیڑ میں گم ہے مرا وجود
میں خود کو ڈھونڈھتا ہوں مجھے خد و خال دے
ہر لحظہ بنتے ٹوٹتے رشتے نہ ہوں جہاں
پچھلی رفاقتوں کے وہی ماہ و سال دے
کشکول ذات لے کے نہ جاؤں میں در بدر
حاجت روا ہو سب کا وہ دست سوال دے
اس دشت پر سراب میں بھٹکوں کہاں کہاں
زنجیر آگہی مرے پیروں میں ڈال دے
منظورؔ کا یہ ظرف کہ کچھ مانگتا نہیں
مرضی تری جو چاہے اسے ذو الجلال دے
غزل
ایسی تڑپ عطا ہو کہ دنیا مثال دے
ملک زادہ منظور احمد