معمول پہ ساحل رہتا ہے فطرت پہ سمندر ہوتا ہے
طوفاں جو ڈبو دے کشتی کو کشتی ہی کے اندر ہوتا ہے
جو فصل خزاں میں کانٹوں پر رقصان و غزلخواں گزرے تھے
وہ موسم گل میں بھول گئے پھولوں میں بھی خنجر ہوتا ہے
ہر شام چراغاں ہوتا ہے اشکوں سے ہماری پلکوں پر
ہر صبح ہماری بستی میں جلتا ہوا منظر ہوتا ہے
اب دیکھ کے اپنی صورت کو اک چوٹ سی دل پر لگتی ہے
گزرے ہوئے لمحے کہتے ہیں آئینہ بھی پتھر ہوتا ہے
اس شہر ستم میں پہلے تو منظورؔ بہت سے قاتل تھے
اب قاتل خود ہی مسیحا ہے یہ ذکر برابر ہوتا ہے
غزل
معمول پہ ساحل رہتا ہے فطرت پہ سمندر ہوتا ہے
ملک زادہ منظور احمد