EN हिंदी
معمول پہ ساحل رہتا ہے فطرت پہ سمندر ہوتا ہے | شیح شیری
mamul pe sahil rahta hai fitrat pe samundar hota hai

غزل

معمول پہ ساحل رہتا ہے فطرت پہ سمندر ہوتا ہے

ملک زادہ منظور احمد

;

معمول پہ ساحل رہتا ہے فطرت پہ سمندر ہوتا ہے
طوفاں جو ڈبو دے کشتی کو کشتی ہی کے اندر ہوتا ہے

جو فصل خزاں میں کانٹوں پر رقصان و غزلخواں گزرے تھے
وہ موسم گل میں بھول گئے پھولوں میں بھی خنجر ہوتا ہے

ہر شام چراغاں ہوتا ہے اشکوں سے ہماری پلکوں پر
ہر صبح ہماری بستی میں جلتا ہوا منظر ہوتا ہے

اب دیکھ کے اپنی صورت کو اک چوٹ سی دل پر لگتی ہے
گزرے ہوئے لمحے کہتے ہیں آئینہ بھی پتھر ہوتا ہے

اس شہر ستم میں پہلے تو منظورؔ بہت سے قاتل تھے
اب قاتل خود ہی مسیحا ہے یہ ذکر برابر ہوتا ہے