زندگی میں پہلے اتنی تو پریشانی نہ تھی
تنگ دامنی تھی لیکن چاک دامانی نہ تھی
جام خالی تھے مگر مے خانہ تو آباد تھا
چشم ساقی میں تغافل تھا پشیمانی نہ تھی
غازۂ غم ایک تھا تھے سب کے چہرے مختلف
غور سے دیکھا تو کوئی شکل انجانی نہ تھی
جن سفینوں نے کبھی توڑا تھا موجوں کا غرور
اس جگہ ڈوبے جہاں دریا میں طغیانی نہ تھی
تجھ سے امید وفا خواب پریشاں تو نہ تھی
بے وفا عمر گریزاں تھی کہ طولانی نہ تھی
پڑھ چکا اپنی غزل منظورؔ تو ایسا لگا
مرثیہ تھا دور حاضر کا غزل خوانی نہ تھی
غزل
زندگی میں پہلے اتنی تو پریشانی نہ تھی
ملک زادہ منظور احمد