اب خون کو مے قلب کو پیمانہ کہا جائے
اس دور میں مقتل کو بھی مے خانہ کہا جائے
جو بات کہی جائے وہ تیور سے کہی جائے
جو شعر کہا جائے حریفانہ کہا جائے
ہر ہونٹ کو مرجھایا ہوا پھول سمجھئے
ہر آنکھ کو چھلکا ہوا پیمانہ کہا جائے
سنسان ہوئے جاتے ہیں خوابوں کے جزیرے
خوابوں کے جزیروں کو بھی ویرانہ کہا جائے
واعظ نے جو فرمایا تھا محراب حرم میں
رندوں سے وہ کیوں ساقی مے خانہ کہا جائے
تپتے ہوئے صحرا میں بھی کچھ پھول کھلائیں
کب تک لب و رخسار کا افسانہ کہا جائے
ہم صبح بہاراں کی تمازت سے جلے ہیں
ہم سے گل و شبنم کا نہ افسانہ کہا جائے
دیوانہ ہر اک حال میں دیوانہ رہے گا
فرزانہ کہا جائے کہ دیوانہ کہا جائے
مخدوم سے ہم کو بھی ہے نسبت وہی منظورؔ
رندوں میں جسے نسبت پیمانہ کہا جائے
غزل
اب خون کو مے قلب کو پیمانہ کہا جائے
ملک زادہ منظور احمد