اغیار کا شکوہ نہیں اس عہد ہوس میں
اک عمر کے یاروں نے بھی دل توڑ دیا ہے
مہیش چندر نقش
اے نقشؔ کر رہا تھا جنہیں غرق ناخدا
طوفاں کے زور سے وہ سفینے ابھر گئے
مہیش چندر نقش
بہت دشوار تھی راہ محبت
ہمارا ساتھ دیتے ہم سفر کیا
مہیش چندر نقش
دنیا سے ہٹ کے اک نئی دنیا بنا سکیں
کچھ اہل آرزو اسی حسرت میں مر گئے
مہیش چندر نقش
ڈوبنے والے موج طوفاں سے
جانے کیا بات کرتے جاتے ہیں
مہیش چندر نقش
حال کہہ دیتے ہیں نازک سے اشارے اکثر
کتنی خاموش نگاہوں کی زباں ہوتی ہے
مہیش چندر نقش
اس ڈوبتے سورج سے تو امید ہی کیا تھی
ہنس ہنس کے ستاروں نے بھی دل توڑ دیا ہے
مہیش چندر نقش
کون سمجھے ہم پہ کیا گزری ہے نقشؔ
دل لرز اٹھتا ہے ذکر شام سے
مہیش چندر نقش
خود شناسی تھی جستجو تیری
تجھ کو ڈھونڈا تو آپ کو پایا
مہیش چندر نقش