ہوا ہے اہل ساحل پر اثر کیا
تجھے اے ڈوبنے والے خبر کیا
وہی ہے چشم نرگس کا تحیر
نہیں گلشن میں کوئی دیدہ ور کیا
سفینہ کیوں تہ گرداب آیا
تلاطم خیز موجوں کو خبر کیا
نگاہ لطف کا ممنون ہے دل
مگر یہ پرسش بار دگر کیا
نہ جانا جس نے راز مرگ و ہستی
وہ کیا سمجھے کہ ہے تیری نظر کیا
بہت دشوار تھی راہ محبت
ہمارا ساتھ دیتے ہم سفر کیا
ستاروں کی بھی عمریں ہو گئیں ختم
نہ ہوگا قصۂ غم مختصر کیا
سحر اپنی نہ اپنی شام اے نقشؔ
کسی مجبور کے شام و سحر کیا
غزل
ہوا ہے اہل ساحل پر اثر کیا
مہیش چندر نقش