ان کے گیسو سنورتے جاتے ہیں
حادثے ہیں گزرتے جاتے ہیں
وقت سنتا ہے جن کی آوازیں
ہائے وہ لوگ مرتے جاتے ہیں
ڈوبنے والے موج طوفاں سے
جانے کیا بات کرتے جاتے ہیں
یوں گزرتے ہیں ہجر کے لمحے
جیسے وہ بات کرتے جاتے ہیں
ہوش میں آ رہے ہیں دیوانے
کس کے جلوے بکھرتے جاتے ہیں
کیا خبر آج کس کی یادوں کے
نقشؔ دل پر ابھرتے جاتے ہیں
غزل
ان کے گیسو سنورتے جاتے ہیں
مہیش چندر نقش