EN हिंदी
خالد ملک ساحلؔ شیاری | شیح شیری

خالد ملک ساحلؔ شیر

19 شیر

خواب دیکھا تھا محبت کا محبت کی قسم
پھر اسی خواب کی تعبیر میں مصروف تھا میں

خالد ملک ساحلؔ




بعض اوقات ترا نام بدل جاتا ہے
بعض اوقات ترے نقش بھی کھو جاتے ہیں

خالد ملک ساحلؔ




جواب جس کا نہیں کوئی وہ سوال بنا
میں خواب میں اسے دیکھوں کوئی خیال بنا

خالد ملک ساحلؔ




اس تشنہ لبی پر مجھے اعزاز تو بخشو
اے بادہ کشو جام اٹھاؤ کہ چلا میں

خالد ملک ساحلؔ




اس شہر کے لوگوں پہ بھروسا نہیں کرنا
زنجیر کوئی در پہ لگاؤ کہ چلا میں

خالد ملک ساحلؔ




ہم لوگ تو اخلاق بھی رکھ آئے ہیں ساحلؔ
ردی کے اسی ڈھیر میں آداب پڑے تھے

خالد ملک ساحلؔ




گزر رہی ہے جو دل پر وہی حقیقت ہے
غم جہاں کا فسانہ غم حیات سے پوچھ

خالد ملک ساحلؔ




دنیا سے دور اپنے برابر کھڑے رہے
خوابوں میں جاگتے تھے مگر رات ہو گئی

خالد ملک ساحلؔ




چمک رہے تھے اندھیرے میں سوچ کے جگنو
میں اپنی یاد کے خیمے میں سو نہیں پایا

خالد ملک ساحلؔ