حادثے پیار میں ایسے بھی تو ہو جاتے ہیں
رتجگے خیمۂ تسکین میں ہو جاتے ہیں
بعض اوقات ترا نام بدل جاتا ہے
بعض اوقات ترے نقش بھی کھو جاتے ہیں
چلتے چلتے کسی رستے کے کنارے پہ کہیں
یاد کے پھول مسافت میں پرو جاتے ہیں
تجھ کو دیکھا ہے تو آثار نظر آئے ہیں
تجھ کو دیکھا ہے تو ماضی کو بھی رو جاتے ہیں
ہم چلے جاتے ہیں اس شہر کے جنگل سے کہیں
تم ہمیں درد کی خیرات تو دو جاتے ہیں
غزل
حادثے پیار میں ایسے بھی تو ہو جاتے ہیں
خالد ملک ساحلؔ