تقدیر کے دربار میں القاب پڑے تھے
ہم لوگ مگر خواب میں بے خواب پڑے تھے
یخ بستہ ہواؤں میں تھی خاموش حقیقت
ہم سوچ کی دہلیز پہ بیتاب پڑے تھے
تصویر تھی احساس کی تحریر ہوا کی
صحرا میں ترے عکس کے گرداب پڑے تھے
کل رات میں جس راہ سے گھر لوٹ کے آیا
اس راہ میں بکھرے ہوئے کچھ خواب پڑے تھے
وہ پھول جنہیں آپ نے دیکھا تھا ادا سے
اجڑے ہوئے موسم میں بھی شاداب پڑے تھے
پچیس برس بعد اسے دیکھ کے سوچا
اک قطرۂ کم ذات میں غرقاب پڑے تھے
ہم لوگ تو اخلاق بھی رکھ آئے ہیں ساحلؔ
ردی کے اسی ڈھیر میں آداب پڑے تھے
غزل
تقدیر کے دربار میں القاب پڑے تھے
خالد ملک ساحلؔ