EN हिंदी
تو تشنگی کی اذیت کبھی فرات سے پوچھ | شیح شیری
tu tishnagi ki aziyyat kabhi furaat se puchh

غزل

تو تشنگی کی اذیت کبھی فرات سے پوچھ

خالد ملک ساحلؔ

;

تو تشنگی کی اذیت کبھی فرات سے پوچھ
اندھیری رات کی حسرت اندھیری رات سے پوچھ

گزر رہی ہے جو دل پر وہی حقیقت ہے
غم جہاں کا فسانہ غم حیات سے پوچھ

میں اپنے آپ میں بیٹھا ہوں بے خبر تو نہیں
نہیں ہے کوئی تعلق تو اپنی ذات سے پوچھ

دکھی ہے شہر کے لوگوں سے بدمزاج بہت
جو پوچھنا ہے محبت سے احتیاط سے پوچھ

تو اپنی ذات کے اندر بھی جھانک لے ساحلؔ
زمیں کا بھید کسی روز کائنات سے پوچھ