EN हिंदी
میرے بھی کچھ گلے تھے مگر رات ہو گئی | شیح شیری
mere bhi kuchh gile the magar raat ho gai

غزل

میرے بھی کچھ گلے تھے مگر رات ہو گئی

خالد ملک ساحلؔ

;

میرے بھی کچھ گلے تھے مگر رات ہو گئی
کچھ تم بھی کہ رہے تھے مگر رات ہو گئی

دنیا سے دور اپنے برابر کھڑے رہے
خوابوں میں جاگتے تھے مگر رات ہو گئی

اعصاب سن رہے تھے تھکاوٹ کی گفتگو
الجھن تھی مسئلے تھے مگر رات ہو گئی

آنکھوں کی روشنی میں اندھیرے بکھر گئے
خیمے سے کچھ جلے تھے مگر رات ہو گئی

اے دل اے میرے دل یہ سنا ہے کہ شام کو
گھر سے وہ چل پڑے تھے مگر رات ہو گئی

ایسی بھی کیا وفا کی کہانی تھی رو پڑے
کچھ سلسلے چلے تھے مگر رات ہو گئی

کچھ زینے اختیار کے چڑھنے لگا تھا میں
کچھ وہ اتر رہے تھے مگر رات ہو گئی

دشمن کی دوستی نے مسافت سمیٹ لی
قدموں میں راستے تھے مگر رات ہو گئی

ساحلؔ فریب فکر ہے دنیا کی داستاں
کچھ راز کھل چلے تھے مگر رات ہو گئی