میں اپنی آنکھ بھی خوابوں سے دھو نہیں پایا
میں کیسے دوں گا زمانے کو جو نہیں پایا
شب فراق تھی موسم عجیب تھا دل کا
میں اپنے سامنے بیٹھا تھا رو نہیں پایا
مری خطا ہے کہ میں خواہشوں کے جنگل میں
کوئی ستارہ کوئی چاند بو نہیں پایا
حسین پھولوں سے دیوار و در سجائے تھے
بس ایک برگ دل آسا پرو نہیں پایا
چمک رہے تھے اندھیرے میں سوچ کے جگنو
میں اپنی یاد کے خیمے میں سو نہیں پایا
نہیں ہے حرف تسلی مگر کہوں ساحلؔ
نہیں جو پایا کہیں یار تو نہیں پایا
غزل
میں اپنی آنکھ بھی خوابوں سے دھو نہیں پایا
خالد ملک ساحلؔ