EN हिंदी
خلیل تنویر شیاری | شیح شیری

خلیل تنویر شیر

31 شیر

حدود شہر سے باہر بھی بستیاں پھیلیں
سمٹ کے رہ گئے یوں جنگلوں کے گھیرے بھی

خلیل تنویر




اب کے سفر میں درد کے پہلو عجیب ہیں
جو لوگ ہم خیال نہ تھے ہم سفر ہوئے

خلیل تنویر




حرف کو برگ نوا دیتا ہوں
یوں مرے پاس ہنر کچھ بھی نہیں

خلیل تنویر




حادثوں کی مار سے ٹوٹے مگر زندہ رہے
زندگی جو زخم بھی تو نے دیا گہرا نہ تھا

خلیل تنویر




گھر میں کیا غم کے سوا تھا جو بہا لے جاتا
میری ویرانی پہ ہنستا رہا دریا اس کا

خلیل تنویر




دور تک ایک سیاہی کا بھنور آئے گا
خود میں اترو گے تو ایسا بھی سفر آئے گا

خلیل تنویر




بہت عزیز تھے اس کو سفر کے ہنگامے
وہ سب کے ساتھ چلا تھا مگر اکیلا تھا

خلیل تنویر




اوروں کی برائی کو نہ دیکھوں وہ نظر دے
ہاں اپنی برائی کو پرکھنے کا ہنر دے

خلیل تنویر




اپنا لہو یتیم تھا کوئی نہ رنگ لا سکا
منصف سبھی خموش تھے عذر جفا کے سامنے

خلیل تنویر