مرے وجود میں تھے دور تک اندھیرے بھی
کہیں کہیں پہ چھپے تھے مگر سویرے بھی
نکل پڑے تھے تو پھر راہ میں ٹھہرتے کیا
یوں آس پاس کئی پیڑ تھے گھنیرے بھی
یہ شہر سبز ہے لیکن بہت اداس ہوئے
غموں کی دھوپ میں جھلسے ہوئے تھے ڈیرے بھی
حدود شہر سے باہر بھی بستیاں پھیلیں
سمٹ کے رہ گئے یوں جنگلوں کے گھیرے بھی
سمندروں کے غضب کو گلے لگائے ہوئے
کٹے پھٹے تھے بہت دور تک جزیرے بھی
غزل
مرے وجود میں تھے دور تک اندھیرے بھی
خلیل تنویر