عکس تھے آواز تھی لیکن کوئی چہرا نہ تھا
ناچتے گاتے قدم تھے اور کوئی پہرا نہ تھا
حادثوں کی مار سے ٹوٹے مگر زندہ رہے
زندگی جو زخم بھی تو نے دیا گہرا نہ تھا
خواب کی مانند گزریں کیسی کیسی صورتیں
دل کے ویرانے میں کوئی عکس بھی ٹھہرا نہ تھا
آگ کی بارش ہوئی منظر جھلس کر رہ گئے
شام کے سائے میں کوئی گونجتا لہرا نہ تھا
غزل
عکس تھے آواز تھی لیکن کوئی چہرا نہ تھا
خلیل تنویر