جو زخم دیتا ہے تو بے اثر ہی دیتا ہے
خلش وہ دے کہ جسے بھول بھی نہ پاؤں میں
خلیل تنویر
جن کو زمین دیدۂ دل سے عزیز تھی
وہ کم نگاہ لوگ تھے ہجرت نہ کر سکے
خلیل تنویر
اس بھرے شہر میں دن رات ٹھہرتے ہی نہیں
کون یادوں کے سفر نامے کو تحریر کرے
خلیل تنویر
حدود شہر سے باہر بھی بستیاں پھیلیں
سمٹ کے رہ گئے یوں جنگلوں کے گھیرے بھی
خلیل تنویر
حدود دل سے جو گزرا وہ جان لیوا تھا
یوں زلزلے تو کئی اس جہان میں آئے
خلیل تنویر
حرف کو برگ نوا دیتا ہوں
یوں مرے پاس ہنر کچھ بھی نہیں
خلیل تنویر
حادثوں کی مار سے ٹوٹے مگر زندہ رہے
زندگی جو زخم بھی تو نے دیا گہرا نہ تھا
خلیل تنویر
گھر میں کیا غم کے سوا تھا جو بہا لے جاتا
میری ویرانی پہ ہنستا رہا دریا اس کا
خلیل تنویر
دور تک ایک سیاہی کا بھنور آئے گا
خود میں اترو گے تو ایسا بھی سفر آئے گا
خلیل تنویر