اوروں کی برائی کو نہ دیکھوں وہ نظر دے
ہاں اپنی برائی کو پرکھنے کا ہنر دے
وہ لوگ جو سورج کے اجالے میں چلے تھے
کس راہ میں گم ہو گئے کچھ ان کی خبر دے
اک عمر سے جلتے ہوئے صحراؤں میں گم ہوں
کچھ دیر ٹھہر جاؤں گا دامان شجر دے
اک خوف سا طاری ہے گھروں سے نہیں نکلے
ترسی ہوئی آنکھوں کو سرابوں کا سفر دے
سب اپنے چراغوں کو بجھائے ہوئے چپ ہیں
اک آگ سی سینے میں لگا دے وہ شرر دے
غزل
اوروں کی برائی کو نہ دیکھوں وہ نظر دے
خلیل تنویر