دور تک ایک سیاہی کا بھنور آئے گا
خود میں اترو گے تو ایسا بھی سفر آئے گا
آنکھ جو دیکھے گی دل اس کو نہیں مانے گا
دل جو دیکھے گا وہ آنکھوں میں ابھر آئے گا
اپنے احساس کا منظر ہی بدل جائے گا
آنکھ جھپکے گی تو کچھ اور نظر آئے گا
اور چلنا ہے تو بے خوف و خطر نکلو بھی
نہ کسی ابر کا سایہ نہ شجر آئے گا
ختم ہو جائے گی جب جشن ملاقات کی رات
یاد بجھتے ہوئے خوابوں کا نگر آئے گا
غزل
دور تک ایک سیاہی کا بھنور آئے گا
خلیل تنویر